متن احکام
۱۶۲۷۔اگر جُنب شخص ماہ رمضان المبارک میں جان بوجھ کر اذان صبح تک غسل نہ کرے تو اس کا روزہ باطل ہے اور جس شخص کا وظیفہ تیمم ہو، اور وہ جان بوجھ کر تیمم نہ کرے تو اس کا روزہ بھی باطل ہے اور ماہ رمضان کی قضا کا حکم بھی یہی ہے۔
*۱۶۲۹۔ اگر جنب شخص ماہ رمضان کے روزوں اور ان کی قضا کے علاوہ ان واجب روزوں میں جن کا وقت ماہ رمضان کے روزوں کی طرح معین ہے جان بوجھ کر اذان صبح تک غسل نہ کرے تو اظہر یہ ہے کہ اس کا روزہ صحیح ہے۔
*۱۶۳۰۔ اگر کوئی شخص ماہ رمضان المبارک کی کسی رات میں جنب ہوجائے تو اگر وہ عمداً غسل نہ کرے حتی کہ وقت تنگ ہو جائے تو ضروری ہے کہ تیمم کرے اور روزہ رکھے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ اس کی قضا بھی بجالائے۔
*۱۶۳۱۔ اگر جنب شخص ماہ رمضان میں غسل کرنا بھول جائے اور ایک دن کے بعد اسے یاد آئے تو ضروری ہے کہ اس دن کا روہ قضا کرے اور اگر چند دنوں کے بعد یاد آئے تو اتنے دنوں کے روزوں کی قضا کرے جتنے دنوں کے بارے میں اسے یقین ہو کہ وہ جنب تھا مثلاً اگر اسے یہ علم نہ ہو کہ تین دن جنب رہا یا چار دن تو ضروری ہے تین دنوں کے روزوں کی قضا کرے۔
*۱۶۳۲۔ اگر ایک ایسا شخص اپنے آپ کو جنب کرلے جس کے پاس ماہ رمضان کی رات میں غسل اور تیمم میں سے کسی کے لئے بھی وقت نہ ہو تو اس کا روزہ باطل ہے اور اس پر قضا اور کفارہ دونوں واجب ہیں۔
*۱۶۳۳۔ اگر روزہ دار یہ جاننے کے لئے جستجو کرے کہ اس کے پاس وقت ہے یا نہیں اور گمان کرے کہ اس کے پاس غسل کے لئے وقت ہے اور اپنے آپ کو جنب کرلے اور بعد میں اسے پتہ چلے کہ وقت تنگ تھا اور تیمم کرے تو اس کا روزہ صحیح ہے اور اگر بغیر جستجو کئے گمان کرے کہ اس کے پاس وقت ہے اور اپنے آپ کو جنب کر لے اور بعد میں اسے پتہ چلے کہ وقت تنگ تھا اور تیمم کرکے روزہ رکھے تو احتیاط مستحب کی بنا پر ضروری ہے کہ اس دن کے روزے کی قضا کرے۔
*۱۶۳۴۔جو شخص ماہ رمضان کی کسی رات میں جنب ہو اور جانتا ہو کہ اگر سوئے گا تو صبح تک بیدار ہ ہوگا اسے بغیر غسل کئے نہیں سونا چاہئے اور اگر وہ غسل کرنے سے پہلے اپنی مرضی سے سو جائے اور صبح تک بیدار نہ ہو تو اس کا روزہ باطل ہے اور قضا اور کفارہ دونوں اس پر واجب ہیں۔
*۱۶۳۵۔جب جنب ماہ رمضان کی رات میں سو کر جاگ اٹھے تو احتیاط واجب یہ ہے کہ اگر وہ بیدار ہونے کے بارے میں مطمئن نہ ہو تو غسل سے پہلے نہ سوئے اگرچہ اس بات کا احتمال ہو کہ اگر دوبارہ سو گیا تو صبح کی اذان سے پہلے بیدا ہو جائے گا۔
*۱۶۳۶۔ اگر کوئی شخص ماہ رمضان کی کسی رات میں جنب ہو اور یقین رکھتا ہو کہ اگر سو گیا تو صبح کی اذان سے پہلے بیدار ہو جائے گا اور اس کا مصمم ارادہ ہوکہ بیدار ہونے کے بعد غسل کرے گا اور اس ارادے کے ساتھ سو جائے اور اذان تک سوتا رہے تو اس کا روزہ صحیح ہے۔ اور اگر کوئی شخص صبح کی اذان سے پہلے بیدار ہونے کے بارے میں مطمئن ہو تو اس کے لئے بھی یہی حکم ہے۔
*۱۶۳۷۔ اگر کوئی شخص ماہ رمضان کی کسی رات میں جنب ہو اور اسے علم ہو یا احتمال ہوکہ اگر سو گیا تو صبح کی اذان سے پہلے بیدار ہو جائے گا اور وہ اس بات سے غافل ہو کہ بیدار ہونے کے بعد اس پر غسل کرنا ضروری ہے تو اس صورت میں جب کہ وہ سو جائے اور صبح کی اذان تک سویا رہے احتیاط کی بنا پر اس پر قضا واجب ہو جاتی ہے۔
*۱۶۳۸۔ اگر کوئی شخص ماہ رمضان کی کسی رات میں جنب ہو اور اسے یقین ہو یا احتمال اس بات کا ہو کہ اگر وہ سو گیا تو صبح کی اذان سے پہلے بیدار ہوجائے گا اور وہ بیدار ہونے کے بعد غسل نہ کرنا چاہتا ہوتو اس صورت میں جب کہ وہ سو جائے اور بیدار نہ ہو اس کا روزہ باطل ہے اور قضا اور کفارہ اس کے لئے لازم ہے۔ اور اسی طرح اگر بیدار ہونے کے بعد اسے تردد ہو کہ غسل کرے یا نہ کرے تو احتیاط لازم کی بنا پر یہی حکم ہے۔
*۱۶۳۹۔اگر جنب شخص ماہ رمضان کی کسی رات میں سو کر جاگ اٹھے اور اسے یقین ہو یا اس بات کا احتمال ہو کہ اگر دوبارہ سو گیا تو صبح کی اذان سے پہلے بیدار ہو جائے گا اور وہ مصمم ارادہ بھی رکھتا ہو کہ بیدار ہونے کے بعد غسل کرے گا اور دوبارہ سو جائے اور اذان تک بیدار نہ ہو تو ضروری ہے کہ بطور سزا اس دن کا روزہ قضا کرے۔ اور اگر دوسری نیند سے بیدار ہو جائے اور تیسری دفعہ سو جائے اور صبح کی اذان تک بیدار نہ ہو تو ضروری ہے کہ اس دن کے روزے کی قضا کرے اور احتیاط مستحب کی بنا پر کفارہ بھی دے۔
*۱۶۴۰۔ جب انسان کو نیند میں احتلام ہو جائے تو پہلی، دوسری اور تیسری نیند سے مراد وہ نیند ہے کہ انسان (احتلام سے) جاگنے کے بعد سوئے لیکن وہ نیند جس میں احتلام ہوا پہلی نیند شمار نہیں ہوتی۔
*۱۶۴۱۔ اگر کسی روزہ دار کو دن میں احتلام ہو جائے تو اس پر فوراً غسل کرنا واجب نہیں۔
*۱۶۴۲۔ اگر کوئی شخص ماہ رمضان میں صبح کی اذان کے بعد جاگے اور یہ دیکھے کہ اسے احتلام ہو گیا ہے تو اگرچہ اسے معلوم ہو کہ یہ احتلام اذان سے پہلے ہوا ہے اس کا روزہ صحیح ہے۔
*۱۶۴۳۔ جو شخص رمضان المبارک کا قضا روزہ رکھنا چاہتا ہو اور وہ صبح کی اذان تک جنب رہے تو اگر اس کا اس حالت میں رہنا عمداً ہو تو اس دن کا روزہ نہیں رکھ سکتا اور اگر عمداً نہ ہو تو روزہ رکھ سکتا ہے اگرچہ احتیاط یہ ہے کہ روزہ نہ رکھے۔
*۱۶۴۴۔ جو شخص رمضان المبارک کے قضا روزے رکھنا چاہتا ہو اگر وہ صبح کی اذان کے بعد بیدار ہو اور دیکھے کہ اسے احتلام ہو گیا ہے اور جانتا ہو کہ یہ احتلام اسے صبح کی اذان سے پہلے ہوا ہے تو اقوی کی بنا پر اس دن ماہ رمضان کے روزے کی قضا کی نیت سے روزہ رکھ سکتا ہے۔
*۱۶۴۵۔ اگر ماہ رمضان کے قضا روزوں کے علاوہ ایسے واجب روزوں میں کہ جن کا وقت معین نہیں ہے مثلاً کفارے کے روزے میں کوئی شخص عمداً اذان صبح تک جنب رہے تو اظہر یہ ہے کہ اس کا روزہ صحیح ہے لیکن بہتر ہے کہ اس دن کے علاوہ کسی دوسرے دن روزہ رکھے۔
*۱۶۴۶۔ اگر رمضان کے روزوں میں عورت صبح کی اذان سے پہلے حیض یا نفاس سے پاک ہو جائے اور عمداً غسل نہ کرے یا وقت تنگ ہونے کی صورت میں ۔ اگرچہ اس کے اختیار میں ہو اور رمضان کا روزہ ہو ۔ تیمم نہ کرے تو اس کا روزہ باطل ہے اور احتیاط کی بنا پر ماہ رمضان کے قضا روزے کا بھی یہی حکم ہے (یعنی اس کا روزہ باطل ہے) اور ان دو کے علاوہ دیگر صورتوں میں باطل نہیں اگرچہ احوط یہ ہے کہ غسل کرے۔ ماہ رمضان میں جس عورت کی شرعی ذمہ داری حیض یا نفاس کے غسل کے بدلے تیمم ہو اور اسی طرح احتیاط کی بنا پر رمضان میں اگر جان بوجھ کر اذان صبح سے پہلے تیمم نہ کرے تو اس کا روزہ باطل ہے۔
*۱۶۴۷۔ اگر کوئی عورت ماہ رمضان میں صبح کی اذان سے پہلے حیض یا نفاس سے پاک ہو جائے اور غسل کے لئے وقت نہ ہو تو ضروری ہے کہ تیمم کرے اور صبح کی اذان تک بیدار رہنا ضروری نہیں ہے۔ جب جنب شخص کا وظیفہ تیمم ہو اس کے لئے بھی یہی حکم ہے۔
*۱۶۴۸۔ اگر کوئی عورت ماہ رمضان المبارک میں صبح کی اذان کے نزدیک حیض یا نفاس سے پاک ہو جائے اور غسل یا تیمم کسی کے لئے وقت باقی نہ ہو تو اس کا روزہ صحیح ہے۔
*۱۶۴۹۔ اگر کوئی عورت صبح کی اذان کے بعد حیض یا نفاس کے خون سے پاک ہو جائے یا دن میں اسے حیض یا نفاس کا خون آجائے تو اگرچہ یہ خون مغرب کے قریب ہی کیوں نہ آئے اس کا روزہ باطل ہے۔
*۱۶۵۰۔اگر عورت حیض یا نفاس کا غسل کرنا بھول جائے اور اسے ایک دن یا کئی دن کے بعد یاد آئے تو جو روزے اس نے رکھے ہوں وہ صحیح ہیں۔
*۱۶۵۱۔ اگر عورت ماہ رمضان المبارک میں صبح کی اذان سے پہلے حیض یا نفاس سے پاک ہو جائے اور غسل کرنے میں کوتاہی کرے اور صبح کی اذان تک غسل نہ کرے اور وقت تنگ ہونے کی صورت میں تیمم بھی نہ کرے تو اس کا روزہ باطل ہے لیکن اگر کوتاہی نہ کرے مثلا منتظر ہو کہ زمانہ حمام میسر آجائے خواہ اس مدت میں وہ تین دفعہ سوئے اور صبح کی اذان تک غسل نہ کرے اور تیمم کرنے میں بھی کوتاہی نہ کرے تو اس کا روزہ صحیح ہے۔
*۱۶۵۲۔ جو عورت استحاضہ کثیرہ کی حالت میں ہو اگر وہ اپنے غسلوں کو اس تفصیل کے ساتھ نہ بجالائے جس کا ذکر مسئلہ ۴۰۲ میں کیا گیا ہے تو اس کا روزہ صحیح ہے۔ ایسے ہی استحاضہ متوسطہ میں اگرچہ عورت غسل نہ بھی کرے، اس کا روزہ صحیح ہے۔
*۱۶۵۳۔ جس شخص نے میت کو مس کیا ہو یعنی اپنے بدن کا کوئی حصہ میت کے بدن سے چھوا ہو وہ غسل مس میت کے بغیر روزہ رکھ سکتا ہے اور اگر روزے کی حالت میں بھی میت کو مس کرے تو اس کا روزہ باط نہیں ہوت ا۔